Home / Fiqah / Hajj/Umrah / پیدل حج کرنا قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے اقوال و افعال کی روشنی می

پیدل حج کرنا قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے اقوال و افعال کی روشنی می

पैदल हज करना क़ुरआन व हदीस और बुज़ुर्गाने दीन के अक़वाल व अफ़आ़ल की रौशनी में जायज़ व अफ़ज़ल है जबकि ताक़त रखता हो और शोहरत व नुमाइश मक़सद ना हो । (बहारे शरीअ़त, हि० 6, स० 1049) ✍️ मुहम्मद रफ़ी रज़ा क़ादरी (बरेली शरीफ़)

===============================

» پیدل حج کرنا قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے اقوال و افعال کی روشنی میں ۔ « ✍️ محمد رفیع رضا قادری ۔ بریلی شریف

===============================

زمانہ حج کا ہے جلوہ دیا ہے شاہد گل کو

اِلہٰی طاقت پرواز دے پرہائے بلبل کو

( اعلی حضرت )

( گزشتہ کئی روز سے سوشل میڈیا پر یہ مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ آیا پیدل حج کرنے کی شرعاً اجازت ہے یا نہیں ، فقیر اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے چند سطور ہدیۂ قارئین کرتا ہے۔ )

پیدل حج کرنا نہ صرف جائز بلکہ بڑی سعادت مندی اور فضیلت کی بات ہے مگر جب کہ اس کی طاقت رکھتا ہو اور اس سے مقصود نام و نمود ، شہرت و نمائش نہ ہو بلکہ یہ مقدس سفر فقط اللہ ﷻ و رسول ﷺ کی محبت میں ہو۔

» قرآن کریم فرقان حمید میں اللہ ﷻ ارشاد فرماتا ہے:

وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ ° سورۃ الحج، آیت ۲۷

ترجمۂ کنز الایمان: اور لوگوں میں حج کی عام ندا کردے وہ تیرے پاس حاضر ہوں گے “پیادہ” اور ہر دُبلی اونٹنی پر کہ ہر دُور کی راہ سے آتی ہیں ۔

وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ: اور لوگوں   میں   حج کا عام اعلان کردو ۔}  کعبہ شریف کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم  علیہ الصلوۃ والسلام  کوحکم دیا گیا کہ اب لوگوں   کو میرے گھر آنے کی دعوت دو، چنانچہ حضرت ابراہیم  علیہ الصلوۃ والسلام  نے ابوقبیس پہاڑ پر چڑھ کر جہان کے لوگوں  کو ندا کردی کہ  بیتُ  اللہ  کا حج کرو ۔ جن کی قسمت میں  حج کرنا لکھا تھا انہوں   نے اپنے باپوں  کی پشتوں   اور ماؤں  کے پیٹوں   سے جواب دیا ’’لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ‘‘  یعنی میں  حاضر ہوں ، اے  اللہ ! میں  حاضر ہوں ۔

حضرت حسن  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول ہے کہ اس آیت  ’’اَذِّنْ‘‘  میں  رسول کریم ﷺ  کو خطاب ہے ،چنانچہ حجۃ الوداع میں  آپ ﷺ نے اعلان کردیا اور ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!   اللہ ﷻ نے تم پر حج فرض کیا تو حج کرو ۔

( مدارک، الحج، تحت الآیۃ ۲۷، ص۷۳۶ /  خازن، الحج، تحت الآیۃ ۲۷، ۳ / ۳۰۵،  ملتقطاً )

یَاْتُوْكَ رِجَالًا: وہ تمہارے پاس پیدل آئیں   گے ۔}  یعنی جب آپ لوگوں   میں   حج کا اعلان کریں   گے تو لوگ آپ کے پاس پیدل اور ہر دبلی اونٹنی پرسوار ہوکر آئیں   گے جو دور کی راہ سے آتی ہیں   اور کثیر سفر کرنے کی وجہ سے دبلی ہو جاتی ہیں۔

( خازن، الحج، تحت الآیۃ ۲۷، ۳ / ۳۰۵-۳۰۶ )

تفسیر صراط الجنان (تحت الآیۃ ۲۷) میں آگے ہے:

 اس آیت میں حج کے لئے پیدل آنے والوں کا پہلے ذکر کیا گیا ،اس سے معلوم ہو اکہ پیدل حج کرنا بہت فضیلت کا باعث ہے ۔

» احادیث و اقوال «

» سنن ابو داؤد (حدیث ٣٣١٥) میں ہے:

بوانہ کی پہاڑیوں پر نذر پوری کرنے کے متعلق ایک صحابی نے آپﷺ سے سوال کیا:رفیع) آپ ﷺ نے پوچھا : کیا وہاں کوئی بت ہے یا جاہلیت کی عیدوں میں سے کوئی عید ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: یہ میری والدہ ہیں ان کے ذمہ نذر ہے، اور پیدل حج کرنا ہے، کیا میں اسے ان کی طرف سے پورا کر دوں؟ اور ابن بشار نے کبھی یوں کہا ہے: کیا ہم ان کی طرف سے اسے پورا کر دیں؟ ( جمع کے صیغے کے ساتھ ) آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔

دیکھئے یہاں خود آقا ﷺ نے پیدل حج کرنے کی کی اجازت مرحمت فرمائی۔

اور پھر یہ کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدل حج نہ کر سکنے پر بے حد افسوس فرمایا کرتے:

» فرماتے ہیں مجھے اتنا افسوس اور کسی بات کا نہیں جتنا اس بات کا ہے کہ میں نے پیدل حج نہیں کیا ۔

(حدیث ۸۶۴۷)

» ایک دوسری حدیث میں: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جوانی میں جو کام میرے رہ گئے ہیں مجھے کسی پر ندامت نہیں مگر اس بات پر کہ میں پیدل حج نہ کرسکا اور حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے پچیس حج پیدل کیے ہیں، جب کہ بہترین سواریاں ان کے ساتھ ہوتی تھیں اور اللہ نے ان کے مال کو تین مرتبہ تقسیم کیا حتیٰ کہ وہ موزہ دے دیتے تھے اور صرف جوتا رکھتے تھے۔

( سنن کبریٰ للبیہقی، کتاب الحج، حدیث نمبر: ۸۶۴۸ )

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۲۵ حج پیدل ہی فرمائے تھے جبکہ آپ کے ساتھ بہترین سواریاں ہوا کرتی تھیں۔

» اور پھر ابن ابی شیبہ ( حدیث ۱۲۵۵۴ ) میں ہے:

حضرت عمرو بن سعید البجلی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر منبر پر تھے اور میں منبر کے نیچے (سامنے) بیٹھا تھا، ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ اے امیر المومنین! میں نے نذر مانی تھی کہ پیدل حج کروں گا جب میں اتنا اتنا سفر پیدل کرچکا تو مجھے خوف ہوا کہ میرا حج فوت ہوجائے گا پھر میں سوار ہوگیا؟ آپ نے فرمایا تجھ پر کوئی غلطی نہیں ہے، اگلے سال دوبارہ لوٹ جو سوار ہوا ہے وہ پیدل چل اور جو پیدل چلا تھا اتنا سوار ہو۔

» ابن ابی شیبہ ( حدیث ۱۲۵۵۵ ) میں ہے:

حضرت حسن سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص نے نذر مانی ہے کہ وہ پیدل حج کرے گا، آپ نے فرمایا وہ پیدل چلے پھر جب منقطع ہوجائے اس کا چلنا تو سوار ہوجائے اور قربانی کرے۔

» ابن ابی شیبہ ( حدیث ۱۳۷۶۰ ) میں ہے:

حضرت عبید اللہ کی والدہ محترمہ نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی، پھر جب وہ پیدل سفر کر کے مقام سقیاء تک پہنچی تو مزید پیدل سفر سے عاجز آگئیں، حضرت ابن عمر سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا؟ آپ نے فرمایا: اس کو کہو کہ وہ آئندہ سال پھر آئے اور جہاں سے وہ پیدل چلنے سے عاجز آئی تھی وہاں سے پیدل چل کر آگے کا سفر کرے

» کنز العمال ( کتاب الحج و العمرۃ، حدیث ۱۱۷۹۰ ) میں ہے:

بیشک فرشتے سواری پر حج کو جانے والوں سے مصافحہ کرتے ہیں اور پیدل حج کو جانے والوں سے معانقہ کرتے ہیں۔ رواہ ابن ماجہ عن عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)

» کنز العمال ( حدیث ۱۱۸۹۴ ) میں ہے:

جو شخص مکہ سے پیدل حج کو جائے یہاں تک کہ مکہ کی طرف لوٹ آئے تو اللہ تعالیٰ ہر قدم پر اس کے لیے سات (700) سو نیکیاں لکھتا ہے حرم کی نیکیوں میں سے۔ پوچھا گیا کہ حرم کی نیکیاں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا: ہر نیکی کے بدلہ ایک لاکھ نیکیاں۔

» کنز العمال ( حدیث ۳۴۶۷۹ ) میں ہے:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل کے لیے فرشتے ہیں جو حرم کے اردگرد کھڑے پتھروں پر اس دن جس دن اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا قیامت کے قائم ہونے تک دعا کرتے ہیں اس شخص کے لیے جو اپنے شہر سے پیدل حج کرے۔ (دیلمی بروایت جابر)

» علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ، جس نے پیدل حج کیا اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہر قدم کے بدلے حرم کی نیکیوں میں سے نیکی لکھ دی، عرض کیا گیا کہ حرم کی نیکیاں کیا ہیں؟ فرمایا، ہر نیکی کے بدلے سات سو ۔

( رد المحتار علی الدر المختار ، کتب الحج، جلد ۳، صفحہ ۵۶۷/۵۶۸ )

» صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی فرماتے ہیں:

پیدل کی طاقت ہو تو پیدل حج کرنا افضل ہے۔ حدیث میں ہے: ’’جو پیدل حج کرے، اُس کے لیے ہر قدم پر سات سو ۷۰۰ نیکیاں ہیں ۔

( بہار شریعت ، حج کا بیان، حصہ ۶، صفحہ ۱۰۴۹ )

اور پھر بے شمار حضرات انبیاء و اولیاء نے پیدل حج کئے ہیں، چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:

» حضرت آدم   علیہ السَّلام   نے ہند  سے پیدل  چالیس حج کئے۔

(طبقات ابن سعد، ۱ / ۳۱)

» حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ:

حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے پیدل حج کیا تھا۔

( سنن کبریٰ للبیہقی، کتاب الحج ، حدیث ۸۶۵۰)

» حضرت ابومحمد مرتعش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

میں نے کئی حج ننگے پاؤں اور پیدل سفر کر کے کئے۔ ایک دن رات کے وقت میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ ہاجرہ کو پانی پلا دو، تو مجھے یہ کام بہت بھاری لگا، اس سے میں نے جان لیا کہ پیدل حج کرنے پر میں نے اپنے نفس کی جو بات مانی اس میں میرے نفس کی لذت کا عمل دخل تھا کیونکہ اگر میرا نفس ختم ہو چکا ہوتا تو (والدہ کی اطاعت کا) وہ کام مجھے بھاری محسوس نہ ہوتا جو شریعت کا حق تھا۔

( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ : ۱۱۲ ، ۵ / ۴۳۱ ، ملخصاً  )

» مرأت الاسرار میں ہے کہ :

حضرت ابراہیم بن ادہم نے بھی پیدل سفر فرمایا، اس طرح کہ ہر قدم پر دوگانہ نفل پڑھتے جاتے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچنے میں چودہ سال لگ گئے۔

( مرآۃ الاسرار ، صفحہ ۲۸۸ مترجم)

» حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ جب پیدل حج کے لئے روانہ ہوئے تو آپ چند قدم چلتے اور نماز ادا کرتے، اور فرماتے کعبہ سلاطین دنیا کی بارگاہ نہیں ہے کہ جہاں یکبارگی اٹھ کر آدمی چلا جائے اسی طرح ۱۲ سال میں آپ مکۃ المکرمہ پہنچے اور حج ادا کیا۔

( انوار الاتقیا ، جلد ۱، صفحہ ۱۶۰ / تذکرۃ الاولیاء ، جلد ۱، صفحہ ۱۳۰ )

” لیکن یہ خیال رہے کہ پیدل حج کرنا صرف اسی کے لئے افضل ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہو اور جو طاقت نہ رکھتا ہو اس کے لئے سواری سے سفر حج افضل ہے۔ “

» مشکوۃ المصابیح ( حدیث ۳۴۴۱ ) میں ہے۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی جبکہ وہ اس کی طاقت نہیں رکھتی تھی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ اللہ تیری بہن کے پیدل چلنے سے بے نیاز ہے، وہ سوار ہو اور قربانی کرے۔‘‘ \

اور بوداؤد کی ایک روایت میں ہے: نبی ﷺ نے اس کو حکم فرمایا کہ وہ سواری کرے اور قربانی کرے۔ \

اور انہی کی ایک روایت میں ہے: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ اللہ تیری بہن کو مشقت و تھکاوٹ میں ڈال کر کیا کرے گا، وہ سواری کرے، حج کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔‘‘ صحیح، رواہ ابوداؤد و الدارمی۔

» ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ:

نبی ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ حج میں وہ دو آدمیوں کے سہارے چل رہا تھا ، بتایا گیا کہ اس نے منت مانی ہے کہ یہ پیدل چلے گا تو نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” یہ اپنے آپ کو تکلیف دے رہا ہے ، اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے ، اسے چاہیے کہ سوار ہو اور پیدل نہ چلے ۔

مطلب یہ ہے کہ اس میں پیدل چلنے کی طاقت نہ تھی تو نبی ﷺ نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا حالانکہ پیدل چلنے میں زیادہ ثواب ہے۔

( العروۃ فی الحج و العمرۃ ، جلد ۵ ، صفحہ ۴۹ )

اس قدر آیت و احادیث ، اقوال و افعال سے روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ جس شخص میں اتنی طاقت ہو کہ وہ پیدل اس مقدس سفر کو طے کر سکے اور اس میں نام و نمود کا ہرگز دخل نہ ہو تو اس کے لئے پیدل حج کرنا افضل ہے۔ لیکن جس شخص میں اتنی طاقت نہ ہو یا شوق وغیرہ میں سفر شروع کرے مگر بعد کو سخت تکلیف اٹھائے تو اس کے لئے سواری سے ہی یہ مبارک سفر افضل ہے، ساتھ ہی یاد رہے جن احادیث میں ممانعت آئی ہے وہ (اکثر) احادیث اسی قبیل سے ہیں وگرنہ کیا آپ مانتے ہیں کہ حضرات صحابہ و اولیاء و علمائے کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اُس امر کی جانب راغب ہوں یا دوسروں کو رغبت دلائیں بلکہ عمل کر جائیں جس کو خود آقا و مولا ﷺ منع فرمائیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُﷻ وَرَسُوْلُہ اَعْلَمﷺ

✍️ محمد رفیع رضا قادری ، بریلی شریف

(اصلاح/رابطہ)۔MRNrazvi@gmail.com

جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے

تم نہیں چلتے ” رضا ” سارا تو سامان گیا

( اعلی حضرت )

Leave a Reply